نرس دوستوں سے اجتماعی معافی نامہ

اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سی چیزوں کے معاملے میں معاشرے کے رویے کو بدلتے دیکھا ہے او ان میں سے ایک اہم چیز نرسنگ کا پیشہ بھی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں نرس بننے والی خواتین کو بہت برا سمجھا جاتا تھا اور ہزار قسم کے طعنے دیے جاتے تھے۔ اگر کوئی خاتون اپنے گھر میں نرسنگ کرنے کا ذکر کرتی تو اسے ٹوک دیا جاتا کہ یہ عزتمند گھرانوں کے شایانِ شان نہیں۔ میری کئی دوست اور رشتہ دار اسی وجہ سے نرسنگ میں نہیں جا سکے کہ ان کے گھر والوں نے اجازت نہیں دیا۔ خاص کر کے چترال سے پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں نرسنگ سے منسلک خواتین کے بارے میں طرح طرح کی باتیں ہوتی تھی۔ مردوں کا نرسنگ کے پیشے میں جانا مردانگی کے برعکس سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جو لوگ کئی بار ایم بی بی ایس کے امتحان میں ناکام ہوجاتے تھے وہ مجبوراً نرس بنتے تھے اور یہ سلسہ شاید آج بھی جاری ہے۔

 

حالات بدلتے گئے اور وقت کے ساتھ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ نرسس کے بارے میں جو واہیات غلط فہمیاں ہم ذہن میں لیکے گھوم رہے تھے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد تھیں۔ دراصل نرسس ہی طبی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ کسی سے بھی پوچھو کہ آغا خان یونیورسٹی میں علاج کیوں بہتر ہے تو وہ بولیں گے کہ وہاں نرسنگ کیر بہت اچھا ہے وگرنہ اے کے یو کے ڈاکٹر کلینک اور دوسرے ہسپتالوں میں بھی ملتے ہیں۔ جب کوئی رشتہ دار یا ہم خود ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ نرسس ماں باپ کی طرح مریض کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم بھی کتنے بے وقار لوگ ہیں کہ ان خواتین کو گالم گلوچ کا نشانہ بناتے رہے ہیں جو کہ انتہائی حساس حالت میں ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ اس بات پہ ہم جتنی افسوس اور شرم کریں وہ کم ہے۔  

میں کسی اور کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا۔ آیا کہ مجھے نرسنگ کا پیشہ ہمیشہ مقدس لگتا تھا لیکن جب میرے کچھ قریبی دوست انٹر کے بعد نرسنگ میں چلے گئے تو مجھے افسوس ہوا تھا کہ اتنے قابل لوگ ڈاکٹر کیوں نہیں بنے۔ میں ان تمام دوستوں کا مشکور ہوں کہ ان کے اس قدم اور ان کے ساتھ بات چیت کرکے اور ہسپتال میں جا کے ان سے مل کے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میری سوچ کتنی غلط تھی۔ مجھے اپنے تمام ڈاکٹر دوستوں پہ بہت فخر ہے لیکن اب میرے دل میں نرس دوستوں کیلئے زیادہ عزت ہے کہ وہ آدھے تنخواہ پہ ڈاکٹر دوستوں کے مقابلے میں دوکنا کام کرتے ہیں اور مریض کی صحت یابی میں بڑا کردار نرسس کا ہی ہے۔ میں اپنے مرد دوستوں کا مشکور ہوں جنہوں نے نرسنگ کے پیشے کو منتخب کیا اور ہمیں بتایا کہ کسی کا خیال رکھنا ہی تو اصل مردانگی ہے۔

نرسنگ کے عالمی دن کے موقعے پر میں اپنی طرف سے اور باقی لوگوں کی طرف سے معاشرے کی کم ظرفی اور کند ذہنی کیلیے معزرت چاہتا ہوں۔ نرسنگ کا پیشہ ہمیشہ سے مقدس رہا ہے اور رہے گا اور اگر کسی چیز میں کمی تھی تو وہ معاشرے میں ہماری سوچ میں تھی۔ میں یہاں پر نرسنگ کو رومینٹیسائز نہیں کررہا اور مجھے علم ہے کہ نرسز سے بھی کوتاہیاں ہوسکتی ہیں اور اس سے بڑھ کر نرسز کو معافی سے زیادہ معاشرے میں زیادہ عزت اور کام میں زیادہ تنخواہ کی ضرورت ہے جو کہ ان کا حق بنتا ہے۔ مجھے اپنے نرس دوستوں پہ فخر ہے کہ وہ بیمار لوگوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کیلئے بھی لڑ رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جن لوگوں کو ابھی بھی نرسنگ کے معالمے میں غلط فہمیاں ہیں وہ اپنی غلط فہمیوں کو دور کریں گے اور نرسز سے اس اجتماعی معافی نامہ میں میرا ساتھ دیں گے۔ 

Spread the love
Subscribe
Notify of
guest
3 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Sabbah
Sabbah
2 years ago

Bo sheli tehrir.

jamila
jamila
2 years ago

thank you ????

trackback
1 year ago

[…] are just a few of the many demands that Chitralis are asking for. Most of the medical and nursing% colleges and universities in Peshawar and other cities are populated by students from Chitral who […]